بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || مورخہ 7 اکتوبر 2023 کو صبح سویرے، غزہ کی پٹی سے ایک عظیم طوفان اٹھا جس نے صہیونی ریاست کی مقبوضہ سرحدوں کو توڑ دیا۔ آپریشن "طوفان الاقصیٰ" کا منصوبہ اسلامی تحریک مقاومت (حماس) اور اس کے اتحادیوں ـ جیسے اسلامی جہاد وغیرہ ـ نے بنایا اور خود ہی اس پر عملدرآمد کیا، یہ نہ صرف ایک فوجی کارروائی تھی بلکہ قبضے کے خلاف جدوجہد کے تاریخی موڑ کا نقطہ بھی تھی۔
اس کارروائی کے دوران، جس میں سیکڑوں فلسطینی مجاہدین مقبوضہ علاقوں کے اندر گہرائی میں داخل ہوئے، ہزاروں راکٹ داغے گئے اور سیکڑوں صہیونی قیدی بنائے گئے، قبضہ کار فوجوں کے 1200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور صہیونی ریاست کے سلامتی اور انٹیلی جنس کے ڈھانچے پر ایک مہلک ضرب لگی۔
اس دن کو گذرے دو سال ہو چکے ہیں۔ ان دو سالوں میں غزہ میں صہیونی ریاست نے اب تک 67 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید اور لاکھوں کو زخمی کیا، ہزاروں لاپتہ ہیں اور غزہ کا بنیادی ڈھانچہ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے، لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں تاہم، یہی دو سال وہ ہیں جنہوں نے فلسطین کو دنیا کا پہلا مسئلہ بنا دیا اور صہیونی ریاست کی مبینہ بالادستی کو تہس نہس کر دیا۔
طوفان الاقصیٰ کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے اس کی جڑوں کو دیکھنا چاہئے۔ صہیونی ریاست نے 1948 فلسطینی سرزمین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا، اور 1967 میں، مغربی کنارے، غزہ اور بیت المقدس پر قبضہ کیا، 78 سال سے زیادہ عرصے سے فلسطین کے عوام اور اصل باشندوں پر ظلم و ستم ڈھا رہی ہے۔ غزہ کا 17 سالہ محاصرہ، مسجد الاقصیٰ اور اسلام کے مذہبی مقدسات کی بار بار بے حرمتی، فلسطینی قیدیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک، غیر قانونی آبادکاری، سخت پابندیاں اور آئے روز کے قتل نے فلسطینیوں کو اذیت میں مبتلا کر رکھا تھا۔ آپریشن سے پہلے کے مہینوں میں، فلسطینی مخالف اقدامات اور الاقصیٰ کے خلاف صہیونی جارحیت میں شدت آئی؛ جہاں فوج کے تعاون سے انتہا پسند آباد کاروں نے مقدس مسجد پر دھاوا بول دیا اور نمازیوں کا قتل عام کیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ 2023 میں، آپریشن سے پہلے، مسجد الاقصیٰ پر 200 سے زیادہ حملے ریکارڈ کئے گئے، جن میں سے اکثر کا مقصد بیت المقدس اور شہر قدس کو مکمل یہودیانا تھا۔
حماس کی مقاومتی تحریک، مقاومت کے فوجی بازو کے طور پر، جس نے ان جارحیتوں کو ناقابل برداشت دیکھ رہی تھی، اسرائیلی ریاست کی انٹیلی جنس کی کمزوریوں کے بارے میں درست معلومات کی بنیاد پر ایک بڑے آپریشن کا منصوبہ بنایا۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق، 7 اکتوبر کی کارروائی میں ریاست کی انٹیلی جنس سروسز مکمل طور پر بے خبری میں آ لی گئیں۔ "ناقابل تسخیر فوج" کا افسانہ ایک صبح منہدم ہو گیا۔ یہ آپریشن 78 قبضے کا ایک جائز ردعمل تھا، کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادیں قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کے حق کو تسلیم کرتی ہیں۔
طوفان الاقصیٰ نے صہیونی ریاست کو اس کے قیام کے بعد سے پہلی بار سب سے بڑی سیکورٹی-فوجی شکست سے دوچار کیا۔ صبح سویرے فلسطینی جنگجوؤں نے عسقلان اور سیدروت جیسے فوجی اڈوں میں گھس کر ریاست کے ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں کو تباہ کر دیا اور صہیونی بستیوں کو گھیرے میں لے لیا، اس طرح دنیا کے سامنے صہیونی ریاست کو ناقابل تلافی دھچکا لگا۔ اسرائیل، جو کئی دہائیوں سے "مکمل فوجی اور انٹیلی جنس برتری" کی بنیاد پر بنایا گیا تھا، طوفان الاقصیٰ کے سامنے اپنی ہیبت کھو بیٹھا۔
فلسطینی آپریشن سے بڑھ کر، طوفان الاقصیٰ پورے محور مقاومت کے لئے ایک چنگاری تھی۔ اس آپریشن نے مقاومتی محاذوں کے اتحاد کو مضبوط بنایا اور "میدانوں کے اتحاد" کے نعرے کو نظریئے سے عملی شکل میں تبدیل کر دیا۔ اس اتحاد نے علاقائی ڈیٹرنس کو تقویت دی۔
انٹیلی جنس ماہرین کے نقطہ نظر سے 7 اکتوبر کا آپریشن صہیونی ریاست کے لئے ایک ناقابل تلافی دھچکا تھا۔ ہاآرتص میں ایلون پنکاس (Alon Pinkas) جیسے صہیونی تجزیہ کار کہتے ہیں: "7 اکتوبر نے اسرائیل کے 75 سالہ سیکورٹی نظریئے کو ختم کردیا۔" دوسری جانب جنگ کے دو سال بعد بھی ریاست حماس کو ختم کرنے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ خود کو غزہ کی دلدل میں پھنسا ہؤا دیکھ رہی ہے، جہاں حماس کی گوریلا کارروائیاں جاری ہیں اور مقاومت و مزاحمت اب بھی زمین پر سرگرم ہے، جبکہ قیدیوں کے تبادلے کے مذاکرات جاری ہیں۔ یہ سب ایسے حال میں ہو رہا ہے کہ غاصب ریاست کے رہنماؤں نے کہا تھا کہ غزہ میں جنگ کا اصل ہدف مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے، لیکن آج وہ اس سے مذاکرات پر مجبور ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: ابو فروہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
110









آپ کا تبصرہ